Monthly Archives: دسمبر 2012

بڑھاپا یا مجبوری

اسلام آباد ائیرپورٹ پر بے ہنگم قطار میں کھڑے میری نظر ایک بزرگ خاتون پر پڑی۔۔۔ اور نگاہ ان پر ایسی رکی کہ بس ویٹنگ ہال پہنچنے تک انہی پر ٹکی رہی۔۔۔ خاتون کی عمر  کچھ ستر کی دہائی میں  ہوگی۔۔۔ سادہ سی شلوار قمیض ، جرابیں اور چپل پہنےہوئی، انتہاء کی معصومیت اور نور چہرے پر نمایاں تھا۔۔۔ میں نے غیرارادی طور پر ان کے اردگرد کا جائزہ لیا۔۔۔ ان کے ساتھ شاید ان کا بیٹا تھا۔۔۔ بہو اور دو پوتے  ۔۔۔ امیگریشن کی قطار میں وہ پورا خاندان میرے برابر کی قطار میں کھڑا تھا۔۔۔

یہ خاندان شاید بذریعہ دوحہ یورپ کے کسی ملک جا رہا تھا۔۔۔ بیٹے، بہو اور پوتوں کے ہاتھ میں میرون پاسپورٹ اور بزرگ خاتون کے ہاتھ میں سبز پاکستانی پاسپورٹ۔۔۔

معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے ان خاتون کی انتہائی پروقار شخصیت پر بہت پیار آ رہا تھا۔۔۔ میرا دل چاہا کہ میں ان کے ہاتھ تھاموں اور انہیں کہوں، چلو اماں میرے ساتھ چلو۔۔۔  اور میرے ساتھ رہو۔۔۔ میری نظر ان کےخوبصورت اور معصوم چہرے سے ہٹ ہی نہیں پا رہی تھی۔۔۔

تجسس کے ہاتھوں مجبور میں ان کے بچوں کی تاثرات بھی دیکھ رہا تھا۔۔۔ بیٹا شاید مجبور تھا کہ ماں کی پرواہ کرنے والا اب پاکستان میں کوئی نہیں، اس لیے اسے ساتھ لے جانا ضروری تھا۔۔۔  بہو انتہاء کی بے زار لگ رہی تھی۔۔۔ اور چہرے پر فرعونیت  نمایاں تھی۔۔۔ ایسا محسوس ہوا کہ کہہ رہی ہو۔۔ میرے بندے کی کمائی اب اس بڈھی پر بھی لگے گی۔۔۔ اور الٹا اس کی خدمت بھی کرنی پڑے گی۔۔۔  دونوں پوتے جو شاید چودہ پندرہ سال کے ہوں گے۔۔۔ ماں سے بھی زیادہ بیزار۔۔۔   جیسے باپ کو کہہ رہے ہوں۔۔۔ "پاپا، یہ ہم کو کہاں پولیوشن میں لے آئے ہو۔۔۔ وی ڈونٹ وانٹ ٹو کم بیک ہیر”

باپ بے چارہ بنا، کبھی اپنی بیوی کے تیور دیکھتا۔۔۔ کبھی اپنے بچوں کے نخرے۔۔۔ اور کبھی اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیتا۔۔۔ جس پر ماں کی آنکھوں میں تھوڑی سی چمک آتی، ایک مسکراہٹ چکمکاتی اور پھر غائب ہو جاتی۔۔۔

اسلام آباد ائیرپورٹ کی بے ہنگم اور گھٹیا سروس۔۔۔ انتہائی زیادہ رش۔۔۔ اور افسران کی سستی۔۔۔ ہر کام آہستہ آہستہ ہو رہا تھا۔۔۔ رات گئے کی دو پروازیں تھیں۔۔۔ اس درمیان۔۔۔ بزرگ خاتون کے جسم اور چہرے  پر تھکاوٹ کےآثار واضح تھے۔۔۔ لیکن اپنی بیٹے اور بہو پوتوں کا ساتھ ، ان جیسی تیزی سے دینا بھی چاہتی تھی۔۔۔ امیگریشن قطار میں کھڑے۔۔۔ خاتون نے اپنے بڑے پوتے کے چہرے کے قریب ہو کرہلکی مسکراہٹ کےساتھ اس سے کچھ بات کی۔۔۔ پوتا، جو شاید کسی قسم کے زعم میں مبتلا تھا۔۔۔ اس نے اپنی دادی کی بات سن کر ایسا منہ بنایا ، جیسے بات سن کر بھی کوئی احسان کیا ہو۔۔۔

میری آخری نظر اس خاتون پر تب پڑی جب امیگریشن کاونٹر عبور کر کے اس کی بہو اس کا ہاتھ تھامے، گویا اسے کھینچتے ہوئے جا رہی تھی۔۔۔ بہو رانی  شاید وہ وقت بھول گئی تھی جب یہی خاتون کتنی چاہ اور ارمانون سے اسے بیاہ کر اپنے گھر لائی تھی۔۔۔ اس کے ناز نخرے اٹھائے تھے۔۔۔ اسے اپنے بیٹے کے ساتھ کے لیے باہر بھیج دیا تھا۔۔۔ اب وہ اپنی بہو کے ہاتھوں مجبور تھی۔۔۔ کہ اگلی زندگی اسی کے گھر گزارنی تھی۔۔۔

دو دن گزر گئے واپس دبئی آئے۔۔۔ لیکن نا جانے کیوں میں اس خاتون کا چہرہ نہیں بھلا پا رہا۔۔۔ اس کے چہرے کی معصومیت میرےذہن پر کچھ انمٹ نقوش چھوڑ چکی ہے۔۔۔  بار بار اس خاتون کی مسکین مسکراہٹ یاد آتی ہے۔۔۔

بار بار اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے کے بچوں کو اس کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔ مجبوری سے نہیں۔۔۔دل سے۔۔۔ پوری محبت اور پیار سے۔۔۔


مری میں آمد – شنگریلا ریسورٹ

شنگریلا ریسورٹ ، مال روڈ مری سے تقریباً دس منٹ کی ڈرائیو پر ایک چھوٹا سا ہِل سٹیشن ہے۔۔۔   16 کمروں پر مشتمل  یہ ریسورٹ نہایت خوبصورت اور پرسکون ہے۔۔۔ چاروں طرف سبزہ   اور قدرتی حسن۔۔۔

میرے لیے یہ منظر یوں بھی بلکل نیا ہی تھا۔۔۔ میں نے ساری عمر مصنوعی ترقی اور خوبصورتی تشکیل ہوتے دیکھی ہے۔۔۔  دبئی کے بڑے بڑے شاپنگ مال اور عمارات مجھے کبھی بھی ایسے نہیں بھائے۔۔۔  اور گرمی نے تو ویسے بھی مت مارے رکھی ہے۔۔۔  یہاں کی ہر شے مجھے بے جان اور بےکیف محسوس ہوتی ہے۔۔۔  شاید روز روز ایسے مناظر دیکھ کر اب جذبات میں کوئی "ایکسائٹمنٹ” باقی نہیں رہی۔۔۔

تیس اکتوبر، رات 8 بجے شنگریلا ریسورٹ پہنچے۔۔۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔۔۔ سردی کافی ہو رہی تھی۔۔۔ اور کمروں کی قطار کے سامنے ، چوکیدار انگیٹھی لگائے ہاتھ سیک رہا تھا۔۔۔  کھانا وغیرہ کھا کر میں بیگم اور علیزہ کے ساتھ چہل قدمی کے لیے نکل کھڑا ہوا۔۔۔

 ماحول کا جادو تھا یا فراغت کا سکون، کہ آسمان پر جگمگاتے ان گنت ستاروں کی چمک اور انتہائی خاموشی  ایک عجب سا پرکیف لطف دے رہے تھے۔۔۔  میں باہر کرسی پر بیٹھ کر ان ستاروں کو تکنے لگا، جو مجھے ایک طویل عرصے بعد آسمان پر ایک ساتھ اتنی تعداد میں نظر آئے۔۔۔   کچھ پرانے گیت اور یادیں امڈ آئیں۔۔۔ اور  زیر لبِ "تاروں بھری رات، بھولے نا کبھی” گنگنانے لگا۔۔۔

درختوں کی اوٹ میں چھپا چاند – شنگریلا

خاموشی اور یادوں کا یہ تسلسل، علیزہ کی  آواز نے توڑا۔۔۔ "بابا ، بابا۔۔۔۔ اُدھر چلو نا”۔۔۔ علیزہ کا اشارہ ایک طرف اونچائی پر جاتے رستے کی جانب تھا۔۔۔   "بیٹا ، ابھی نہیں۔۔۔ ابھی بہت اندھیرا ہے۔۔۔ صبح چلیں گے”۔۔۔ علیزہ نے ضد پکڑ لی کہ ابھی جانا ہے۔۔۔ انہیں چوکیدار نے بتایا تھا کہ وہاں بچوں کے جھولے ہیں۔۔۔  خیر کسی نا کسی طرح اسے منایا کہ صبح ناشتہ کر کے اوپر چلیں گے۔۔۔

مجھے کرسی پر براجمان چھوڑ کر،  علیزہ کبھی پھولوں کے پاس اور کبھی جگہ جگہ بنے بینچوں پر کھیلنے لگی۔۔۔ بیگم اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھی۔۔۔ وہ اسے پکڑ کر لاتی اور علیزہ ہاتھ چھڑا کر پھر آگے بھاگ جاتی اور ساتھ ساتھ قہقہے لگاتی ، بابا ۔۔۔ بابا پکارتی جاتی۔۔۔   اور میں علیزہ کی شرارتیں دیکھ کر  اللہ کا بڑا شکر ادا کر رہا تھا کہ اللہ تبارک تعالٰی نے مجھ گناہگار کو علیزہ کے روپ میں بہترین تحفہ عطا فرمایا۔۔۔ اللہ اس کے نصیب اچھے فرمائے۔۔۔ آمین۔۔۔

ہم نے پروگرام بنایا کہ صبح ناشتے کے بعد مال روڈ چلیں گے۔۔۔ اور علیزہ بڑی مشکل سے منا کر کمرے میں لے آئے۔۔۔ وہ مزید کھیلنا چاہتی تھی اور میرا تھکاوٹ سے برا حال تھا۔۔۔ کمروں میں ہیٹر کی سہولت موجود تھی۔۔۔ اس لیے بڑا سکون رہا۔۔۔

میری آنکھ صبح چھ بجے کھلی۔۔۔ علیزہ اور بیگم اب بھی سو رہے تھے۔۔۔ میں نے اٹھ کر کھڑکی سے پردے سرکائے۔۔۔ باہر کا منظر میرے لیے حیران کن حد تک خوبصورت تھا۔۔۔ دور دور تک سبز پہاڑ  اور افق  پر کہیں سفید اور کہیں گہرے کالے بادل میرے لیے دلکشی کی انتہاء تھے۔۔۔ میں نے جیکٹ پہنی اور  کمرے سے باہر نکل آیا۔۔۔ سیدھا ریسٹورنٹ گیا، وہاں سے ایک کپ کافی کا پکڑا اور چہل قدمی کرتا، ایک پگڈنڈی کی طرف چل نکلا۔۔۔ دونوں طرف طویل قامت درخت  کی قطار،  پرندوں کی چہکنے کی آواز اور نیم گیلی سڑک جو پستی کی جانب مڑ رہی تھی۔۔۔ چلتا چلتا کافی دور چلا آیا۔۔۔ حُسن ِ منظر میں ایسا کھو چکا تھا کہ کتنا چلا، اس کا اندازہ نہیں۔۔۔ کہیں کہیں رک کر اپنے موبائل سے تصاویر بھی بناتا رہا۔۔۔  دل یوں چاہ رہا تھا کہ کاش یہ سفر کبھی ختم نا ہو۔۔۔ یہ وقت یہیں تھم جائے۔۔۔ اور میں ہمیشہ کے لیے یہیں بسر کر لوں۔۔۔

 

صبح کا منظر

افق کے خوبصورت رنگ

خوبصورت درخت اور آسمان کے مختلف رنگ

پستی کی جانب جاتی یہ سڑک

کمروں کے باہر کشادہ اور پرسکون جگہ