Category Archives: میری سوچ

میری ماں

 

مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔۔۔  سب سے پیاری۔۔۔سب کی پیاری۔۔۔  سب کو پیار کرنے والی۔۔۔ سب سے پیار پانے والی۔۔۔ لیکن کچھ مائیں اولاد پر سب کچھ وار کر بھی تہی دامن ہی رہتی ہیں۔۔۔ ایسی ہی کہانی میری ماں کی ہے۔۔۔

میری ماں۔۔۔  آج ہسپتال کے بستر پر ایک زندہ لاش کی طرح پڑی ہیں۔۔۔

میری عادت تھی کہ روز آفس جاتے ہوئے رستے میں امی کو فون کرتا۔۔۔ ایک گھنٹے کی مسافت میں بیس پچیس منٹ ان سے بات ہوتی۔۔۔ ہر گفتگو کا اختتام ان کی اس دعا سے ہوتا۔۔۔ کہ اللہ تمہاری منتیں مرادیں پوری کرے۔۔۔ تمہیں ہر تکلیف سے بچائے۔۔۔ زندگی میں ہر کامیابی تمہیں ملے۔۔۔  میرا ایمان ہے کہ میری ہر کامیابی ان ہی کی دعاووں کا نتیجہ تھی۔۔۔

جمعرات کی شب میں علیزہ اور عنایہ کو لے کر ان سے ملنے آیا۔۔۔ تو وہ خوش تھیں۔۔۔ علیزہ کی تیراکی کی مشق کی ویڈیو دیکھی تھی۔۔۔ کہنے لگی۔۔۔ علیزہ پر محنت کرو۔۔۔ سادہ ہے لیکن ذہین ہے۔۔۔ اسے ڈانٹا مت کرو۔۔۔

"اچھا سنو۔۔۔ کباب کا سالن بنانا مجھے بھی آتا ہے۔۔۔ آج بنایا ہے۔۔۔ کھا کر جانا۔۔۔”

میں نے کھاتے کھاتے ایسے ہی کہا کہ امی نمک زیادہ ہے۔۔۔ تو کہنے لگی۔۔۔ نمک نہیں۔۔۔ شاید ٹماٹر کی وجہ سے تمہیں زیادہ نمکین لگ رہا ہے۔۔۔  میرا ایک کام کرو۔۔۔ فارمیسی پر جاو۔۔۔ اور مجھے گیس کی کوئی دوا لا دو۔۔۔ اور تمہارے ابو پر بہت بوجھ ہے، روز کی میری انسولین کا انجیکشن لگ جاتا ہے۔۔۔ اب سے تم اور کامران مجھے مہینے کا ایک ایک ڈبہ لا کر دیا کرو۔۔۔

میں اٹھا اور جا کر ادویات لے آیا۔۔۔  گھر آیا تو وہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔۔۔ علیزہ عنایہ انہی کے بستر پر بیٹھی کھیل رہی تھیں۔۔۔ میں نے ماتھا چوما۔۔۔ تو کہنے لگی۔۔۔ اب تم گھر جاو۔۔۔ مجھے سونا ہے۔۔۔

بس وہ میرا آخری بوسہ تھا جو میں نے انہیں ان کے ہوش میں دیا۔۔۔ اور یہ آخری بات تھی جو مجھ سے انہوں نے کہی۔۔۔

جمعہ کے روز مجھے صبح صبح آفس جانا پڑا۔۔۔ حسبِ عادت امی کوفون کیا۔۔۔ تو ان کا فون بند ملا۔۔۔ میں نے ابو کے موبائل پر فون کیا تو ابو نے بتایا کہ وہ تو واش روم میں ہیں۔۔۔

گیارہ بجے مجھے ابو کا فون آیا۔۔۔ اور انہوں نے یہ قیامت مجھ پرتوڑی۔۔۔

چار دن پہلے ہنستی کھیلتی، لاڈ اٹھاتی۔۔۔ پھر اچانک باورچی خانے میں گر گئی۔۔۔ کچھ نا معلوم ہوا کہ کیوں گری۔۔۔ بس جب دیکھا تو بے حال، بےہوش، نڈھال۔۔۔ بے آسرا گری ہوئی۔۔۔ ایمبولینس بلائی اور ہسپتال پہنچے۔۔۔ وہاں جا کر علم ہوا کہ برین سٹروک ہوا ہے۔۔۔ جسم کا دایاں حصہ پوری طرح سے مفلوج۔۔۔ اور میری ماں بے ہوش۔۔۔

میں آفس سے سیدھا ہسپتال پہنچا۔۔۔ تو بہن بھائی سب  پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔۔۔ سی ٹی سکین بھی ہو چکا تھا۔۔۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر آئی سی یو میں داخل کر لیا۔۔۔

اڑتالیس گھنٹوں بعد دوسرا سی ٹی سکین ہوا۔۔۔ تو علم ہوا کہ دماغ کا دو تہائی حصہ سٹروک کی وجہ سے انفیکٹ ہو گیا ہے۔۔۔ اور آہستہ آہستہ انفیکشن پورے دماغ میں پھیل رہا ہے۔۔۔  ان انفیکشن کی وجہ سے جسم کے تقریبا سارے اعضاء طبی طور پر مر چکے ہیں۔۔۔ امی کوما میں جا چکی ہیں۔۔۔ چار دن سے وینٹی لیٹر پر ہیں۔۔۔ ادویات بھی ناک کی ذریعے دی جا رہی ہیں۔۔۔

کل ڈاکٹر نے صاف کہہ دیا کہ اب بچنے کی کوئی امید نہیں۔۔۔ سوائے کسی معجزے کے۔۔۔ جوں ہی وینٹی لیٹر اتارا تو امی اللہ کو پیاری ہو جائیں گی۔۔۔

میری ماں۔۔۔ میں ان کا سب سے بڑا مجرم۔۔۔ ایسا مجرم۔۔۔ جس کو انہوں نے سب سے زیادہ پیار کیا۔۔۔ جس کی ہر کامیابی  ، ہر خوشی اور ہر غم ان کی ذات سے وابستہ تھا۔۔۔ کہہ لیجیے کہ میری سب سے اچھی دوست بھی میری ماں ہی تھی۔۔۔ میری کوئی بات ان سے چھپی نا تھی۔۔۔ میں نے انہیں بہت تنگ کیا۔۔۔ بہت رلایا۔۔۔ لیکن میں ان کے لیے سب سے اچھا ہی تھا۔۔۔ سب بہن بھائی کہتے کہ امی صرف عمران کی سنتی ہیں۔۔۔ عمران کی ہی فکر کرتی ہیں۔۔۔  اور میں یہ جانتا مانتا بھی تھا۔۔۔

آج میری ماں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔۔۔ میں ان کے کمرے میں ان کے بستر کے سامنے بیٹھا یہ کہانی لکھ رہا ہوں۔۔۔ میری آنکھیں آنسووں سے بھری ہیں۔۔۔ مجھے بستر پر بیٹھی اپنی ماں اب بھی نظر آ رہی ہیں۔۔۔ میرا دل بوجھل ہے کہ شاید اب میں کبھی اپنی ماں سے بات نا کر پاوں۔۔۔ کبھی ان کی گود میں سر نا رکھ پاوں۔۔۔ کبھی ان کو تنگ نا کر سکوں۔۔۔ شاید اب میں کبھی ان کی دعائیں نا لے سکوں۔۔۔

میری ماں۔۔۔ کاش میری ماں مجھے واپس مل جائے۔۔۔ کاش۔۔۔  میں اپنا سب کچھ دے کر اپنی ماں کو واپس اس دنیا میں ہنستا کھیلتا لے آوں۔۔۔ کاش۔۔۔  میری چھت میرے سر پر ہمیشہ رہے۔۔۔ کاش میں صحیح معنوں میں یتیم نا ہو جاوں۔۔۔

سب دوستوں اور قارئین سے ان کی صحت کے لیے دعا کی درخواست ہے۔۔۔ کہ اللہ کوئی معجزہ دکھائے اور وہ بھلی چنگی ہو جائیں۔۔ جو بقول ڈاکٹروں کے اب ناممکن ہے۔۔۔ا


لانگ مارچ کیوں۔۔۔؟

سوال: جب حکومت خان صاحب کے مطالبات مان رہی ہے تو خان صاحب لانگ مارچ کیوں کررہے ہیں۔۔۔

جواب: خان صاحب پچھلے ڈیڑھ سال سے حکومت سے مطالبات کر رہے ہیں کہ حلقے کھولے جائیں۔۔۔ دھاندلی کی تحقیقات کی جائیں۔۔۔ یہاں تک کہ خان صاحب جب سپریم کورٹ گئے تو افتخار چوہدری صاحب نے کیس سننے سے انکار کر دیا کہ وہ بہت مصروف ہیں۔۔۔اور ان کی اعلیٰ عدالت میں بیس ہزار سے کیس اپنی "پینڈنگ” ہیں۔۔۔ ( یہ الگ بات ہے کہ چیف جسٹس ایویں کے "سوموٹو” لینے کے لیے مشہور ہیں اور یہ بھی الگ بات ہے کہ ان "سوموٹو کیسز” کا نتیجہ شاید ہی کبھی نکلا ہوا)۔۔۔

اب جب ہر دروازہ کھٹکھٹا کر کہیں شنوائی نہیں ہوئی تو آخری حل یہی تھا کہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے۔۔۔ جب حکومت کو نظر آیا کہ اب مشکل سے ہی جان چھوٹے گی تو خان صاحب کی منتیں ترلے شروع کر دئیے کہ اب ہم آپ کی بات مانیں گے، مذاکرات کر لیں۔۔۔ لیکن اب کی خان صاحب نے ان کی درخواستیں سننے سے انکار کیا اور عوام سے جو وعدہ کیا تھا اسے پوراکرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔

 

download

 

قابل ِ غور بات یہ ہے کہ خان صاحب بھی جانتے ہیں کہ "چار حلقوں کی تحقیقات ہو بھی جائیں اور نتائج ان کے حق میں نکل بھی آئیں تب بھی وہ پنجاب یا وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتے۔۔۔ ان کا مقصد بہت سادہ اور عام فہم ہے کہ ایسے قدم اٹھائے جائیں کہ اگلی بار ایسی دھاندلی نا ہو۔۔۔ ان لوگوں کو بے نقاب کیا جائے جو ایسی تاریخی دھاندلی میں ملوث تھے۔۔۔

پاکستانی عوام اس بات کی بھی گواہ ہے کہ خان صاحب نے ہمیشہ جمہوریت کی مضبوطی کو اہم قرار دیا ہے۔۔۔ لیکن ڈیڑھ سال تک ان کے ہر درخواست، ہر مطالبے کا مذاق اُڑایا گیا۔۔۔ یہاں تک کے آپریشن ضرب عضب کے لیے بھی اُن سے مشاورت نہیں کی گئی۔۔۔جبکہ سب جانتے تھے کہ آپریشن کے بعد آئی ڈی پیز کا رُخ خیبر پختونواہ ہو گا۔۔۔ اور کے پی کے کی حکومت کو انہیں سنبھالنا ہو گا۔۔۔ پھر پنجاب اور سندھ نے تو اِ ن متاثرین کے لیے اپنے دروازے بند کر دئیے۔۔۔ یہاں تک کہ صرف پچاس کروڑ کی مدد کے اعلان کے باوجود رقم کے پی کے حکومت کے حوالے نہیں کی گئی۔۔۔ بلکہ وفاق کی طرف سے جن فنڈز کا وعدہ کے پی کے سے کیا گیا تھا ۔۔۔ انہیں بھی روک لیا گیا۔۔۔ اس سب کے بعد بھی پٹواری حضرت پوچھتے ہیں کہ عمران خان نے کے پی کے میں کیا کر لیا۔۔۔ تو میری درخواست اُ ن سب سے یہی ہے کہ براہ کرم، ہم سے مت پوچھیں۔۔۔ کے پی کے کا چکر لگا لیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔۔۔ کہ محدود وسائل کے باوجود، سسٹم میں بہترین تبدیلی کی جا رہی ہے۔۔۔ اور ہماری بات پر یقین نا آئے تو کسی خیبر پختونخواہ کے عقلمند سے پوچھ لیں۔۔۔ انشاءاللہ پٹواریوں کو اچھا جواب ملے گا۔۔۔

سیدھی بات ہے کہ اس وقت پاکستان میں جمہوریت نہیں، بادشاہت ہے۔۔۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت گلو بٹ اورپومی بٹ کلچر ہے، جس کے مائی بات یہی شریف خاندان ہے۔۔۔ جو اپنی فرعونیت میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں عوام سوائے کیڑے مکوڑوں کے کچھ نظر نہیں آتے۔۔۔ اتفاق فاونڈریز کے کاروبار کو چار چاند لگانے کے لیے حکومت نے ایسے منصوبے شروع کیے ، جس سے عنقریب تو عوام کو کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آتا۔۔۔

‘ مزید یہ کہ عمران خان اور اس کی حکومت خیبر پختونخواہ میں دودھ کی نہریں بھی بہا دیں۔۔۔ اگر یہی سسٹم جاری رہا۔۔۔ جو آج ہے۔۔۔ تو وہ کبھی بھی وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتا۔۔۔ کیونکہ دھاندلی ایسے ہی چلتی رہے گی۔۔۔ اور ہم پر زرداری اور شریف جیسے بدمعاش / کرپٹ مجرم مسلط رہیں گے۔۔۔

چلیں یہ بھی مان لیں۔۔۔ کہ عمران خان اپنی "ہڈ دھرمی” کے باعث جمہوری حکومت کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔۔۔ اوہ اور اس کی جماعت کسی "تیسری قوت” کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔۔۔ توکیا عوام بھی بے وقوف ہے ، جو اس کے ساتھ لمبا سفر طے کرتے لانگ مارچ میں شامل ہیں اور کیا وہ سب "ہزاروں / لاکھوں” لوگ بھی بے وقوف ہیں، جو پاکستان میں ایک اچھی تبدیلی کے لیے تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔۔۔

باقی فیصلہ آپ کے ہاتھ۔۔۔


مقسوم

زندگی ہاتھوں سے لمحہ بہ لمحہ پھسلتی جا رہی ہے۔۔۔ ہر وقت کا دھڑکا ہے کہ اب چلے ، تو اب چلے۔۔۔ تبلیغی جماعت والوں کی طرز پر کہوں تو یہ ڈر ہے کہ "تیاری” کیا ہے اگلی منزل کی۔۔۔ ہوش سنبھالا اور خود سے لڑائی شروع ہوئی۔۔۔ اچھائی اور برائی کے درمیاں خود کو "کنفیوز” ہی پایا۔۔۔ جو کرنے کا جی چاہا ۔۔۔ وہ منع ہے، گناہ ہے۔۔۔ اور جس سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔۔۔ تو معلوم ہوا کہ اس کا صلہ تو اگلے جہاں ہی ملے گا۔۔۔

زندگی لمحہ بہ لمحہ گزرتی جا رہی ہے۔۔۔ کچھ یقین نہیں کہ اگلی سانس بھی لے سکوں۔۔۔ اور مر کے بھی چین نا پایا تو کہاں جاوں گا۔۔۔ قبر کی تاریکی ، جہاں روشنی کی کوئی پھوار نہیں۔۔۔ آواز سننے کو ترسنا۔۔۔ اور کیڑے مکوڑوں کی غذا بننا۔۔۔ کیا یہی منزل ہے ۔۔۔؟

موت کے بعد کا حال تو کوئی کیا ہی جانے۔۔۔ جو پڑھا، سنا۔۔۔ بڑا ہی ہولناک ہے۔۔۔ ہم تو زندگی کے حُسن میں ایسے کھوئے رہے کہ موت کی بدصورتی بھول ہی گئے۔۔۔ اگلی منزل تاریک تو ہوگی ہی ۔۔۔ کیا کشادہ ہو پائے گی۔۔۔ یا مزید سکڑتی سکڑتی ہماری رہی سہی پسلیاں بھی توڑ دے گی۔۔۔ وہ کون جانے۔۔۔

اگلی منزل کا ایمان تو لازم و ملزوم ٹھرا۔۔۔ اس کے تیاری کتنی مشکل ہے۔۔۔ یہ تیاری کرنے والا ہی جانے۔۔۔ بڑے سے بڑے حوصلے والا بندہ بھی صرف ایک چیز سے مجبور ہے۔۔۔ "نفس”۔۔۔ پھلتا پھولتا۔۔۔ تھپکیاں دے کر سلاتا۔۔۔ منزل سے غافل کرتا یہ نفس۔۔۔ ہر ایک کو مار دیتا ہے۔۔۔ ہر ایک کو پچھاڑ دیتا ہے۔۔۔ ہمارا سینہ نا چاک ہوا۔۔۔ ہمارا ہمزاد تابع ناہوا۔۔۔ تو آسانی کیسی۔۔۔ ہر عمل کر لیا۔۔۔ نیک بھی اور بد بھی۔۔۔ توبہ بھی کر لی۔۔۔ معافیاں بھی مانگ لیں۔۔۔ چھوڑ دیے گناہ۔۔۔ لیکن یہ نفس۔۔۔ پھر بھی سکون سے نا بیٹھا۔۔۔ اور نا بیٹھنے دیا۔۔۔ پھر بھی ہار نا مانا۔۔۔ پھر بھی تابع کرنے کو کوشش کرتا رہا۔۔۔ اور ہمیں شکست دیتا رہا۔۔۔

سانس کے آنے سے سانس کے جانے تک کی یہ جنگ۔۔۔ انسان ہمیشہ درمیاں میں پھنسا رہا۔۔۔ الجھن میں رہا۔۔۔ کیا کروں کہ میں سکون پاوں۔۔۔؟ کیا کروں کہ والدین، اہل و عیال، دوست احباب اور انسانیت ہمارے زریعے اطمینان پائیں۔۔۔ مزید کیا کروں کہ رب خوش ہو جائے۔۔۔ اور میری منزل آسان ہو جائے۔۔۔ میرا آخری گھر ہی پرسکون ہو جائے۔۔۔ یہی سوچ سوچ کر پھنستا گیا۔۔۔ پھنستا گیا۔۔۔ نفس نے نا اسے خوش ہونے دیا۔۔۔ اور نا رب کو۔۔۔ کہیں سکون نا لینے دیا۔۔۔ ساری زندگی ٹھوکریں کھاتا کھاتا جب آنکھیں بند کیں۔۔۔ تو نیا اور مزید تلخ حساب انتظار میں بیٹھا ہے۔۔۔

زندگی لمحہ بہ لمحہ ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے اور تیاری ہے کہ ہوتے نہیں ہوتی۔۔۔ نا اِدھر کے رہے ، نا اُدھر کے صنم…


وہ ایک آنسو

مورخہ 14 اپریل۔۔۔
مقام: مسجدِ نبوی ﷺ

بابِ جبرائیل اور بابِ البقیع کے درمیان ایک باریش نوجوان ہاتھ باندھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے سامنے با ادب کھڑا تھا۔۔۔۔ میں  نے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے دیکھ کر اپنے چلنے کی رفتار کم کر لی۔۔۔  شاید اس کے معصوم چہرے پر ندامت تھی۔۔۔  میں نے چلتے چلتے بس اس کی آنکھوں سے ایک قطرہ آنسو گرتے دیکھا۔۔۔

وہ ایک آنسو مجھے شرمندگی کی اتاہ گہرائیوں میں پہنچا گیا۔۔۔   کہ میری آنکھیں اب بھی خشک تھیں۔۔۔


نفسِ مطمئنہ کی تلاش

دوستو۔۔۔ یقین جانیے کہ دل سے جانتا ہوں اور مانتا ہوں کہ روئے زمین پر مجھ سے زیادہ گناہ گار اور کمینہ انسان کوئی  ہے اور نا ہی کوئی  ہوگا۔۔۔  اکثر حضرات سے اپنے اس ایمان کا ذکر کیا تو ان کی رائے یہ تھی کہ اپنے آپ کو اتنا گرا ہوا محسوس نا کروں۔۔۔ میں اتنا برا نہیں ، جیسا میں خود کو سمجھتا ہوں۔۔۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ خود احتسابی بھی کوئی شے ہوتی ہے۔۔۔ خود کو کسی بھی طرح اچھا، بہتر، نیک محسوس کروا لیا تو بہتری کی گنجائش شاید ختم ہو جائے۔۔۔  نا صرف یہ کہ گنجائش نا رہی، بلکہ ریا کاری اور تکبر جیسے اخلاقی گناہوں میں مبتلا ہونے میں شاید دیر نا لگے۔۔۔

عمر کے اس مقام پر  اب مجھے دیگر گناہوں سے شاید اتنا خوف محسوس نہیں ہوتا۔۔۔ جتنا نیکی اور اچھائی  کے نام پر اپنے نفس کو  پھلتا پھولتا محسوس کرتے ہوتا ہے۔۔۔ اسی خوف نے مجھے خود کی نظر میں اچھا یا بہتر ہونے سے روک رکھا ہے۔۔۔ اسی خوف نے شاید مجھے اپنی اصل اوقات پر ٹکائے رکھا ہے۔۔۔ اسی خوف نے مجھے یہ باور کروایا ہے کہ سکون تو مجھے شاید آخری سانس کے بعد ملے گا لیکن اس کی تلاش کرنا بھی بے وقوفی ہے۔۔۔

دوستو، یہ نفس بھی انسان کا بڑا دوست ہوتا ہے۔۔۔ اور شاید سب سے بڑا دشمن بھی۔۔۔   کسی کے قابو میں شاید ہی آتا ہوگا۔۔۔ جس کے قابو آ گیا ، اس کی دنیا بھی بن گئی اور آخرت بھی۔۔۔ اور جس پر حاوی ہو گیا۔۔۔ نا  دنیا آباد۔۔۔ اور۔۔۔ نا آخرت میں کوئی حال۔۔۔ واللہ۔۔۔ یہ نفس بڑی کمینی شے ہے۔۔۔  بڑی ہی کمینی شے ہے۔۔۔ انسان کی کامیابی اور ناکامی نفس کے ہاتھوں ہی رکھی گئی ہے ۔۔۔ اس سے لڑنا بھی مشکل اور  اس سے اپنا پہلو بچانا۔۔۔ سب سے مشکل۔۔۔

میں اپنا نفس مارنے کی کوشش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔۔۔ اور کسی طرح بھی کامیابی نظر نہیں آ رہی۔۔۔ نفس ِ مطمئنہ کی تلاش جاری ہے۔۔۔ اور شاید جاری رہے گی۔۔۔ نفسِ مطمئنہ کا حصول شاید اتنا مشکل نہیں۔۔۔ جتنا، اس کی خواہش کرتے رہنا تکلیف دہ ہے۔۔۔

کل استاد ِ محترم نے یہ کلیہ بھی حل کردیا۔۔۔ فرماتے ہیں۔۔۔ "خود سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو دوسروں کو سکون دینا شروع کر دو۔۔۔”

مزید فرماتے ہیں۔۔۔  ” ایک انسان کے لیے مشکل ترین کام اپنے دشمن کو  برداشت کرنا ہے۔۔۔ سکون چاہتے ہو، تو اپنے اس دشمن کے حق میں اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا کرنا شروع کر دو۔۔۔ نا صرف سکون مل جائے بلکہ تمہاری اپنی دعاووں کو بھی قبولیت بخشی جائے گی۔۔۔"

دوستو، استادِ محترم نے حل تو بتا دیا ہے۔۔۔ اب یہ تو خود پر منحصر  ہے کہ کب تک اور کتنی کوشش کرنی ہے۔۔۔  اور کیا اس حل میں کامیابی چھپی ہے۔۔۔ یا تلاش۔۔۔


بڑھاپا یا مجبوری

اسلام آباد ائیرپورٹ پر بے ہنگم قطار میں کھڑے میری نظر ایک بزرگ خاتون پر پڑی۔۔۔ اور نگاہ ان پر ایسی رکی کہ بس ویٹنگ ہال پہنچنے تک انہی پر ٹکی رہی۔۔۔ خاتون کی عمر  کچھ ستر کی دہائی میں  ہوگی۔۔۔ سادہ سی شلوار قمیض ، جرابیں اور چپل پہنےہوئی، انتہاء کی معصومیت اور نور چہرے پر نمایاں تھا۔۔۔ میں نے غیرارادی طور پر ان کے اردگرد کا جائزہ لیا۔۔۔ ان کے ساتھ شاید ان کا بیٹا تھا۔۔۔ بہو اور دو پوتے  ۔۔۔ امیگریشن کی قطار میں وہ پورا خاندان میرے برابر کی قطار میں کھڑا تھا۔۔۔

یہ خاندان شاید بذریعہ دوحہ یورپ کے کسی ملک جا رہا تھا۔۔۔ بیٹے، بہو اور پوتوں کے ہاتھ میں میرون پاسپورٹ اور بزرگ خاتون کے ہاتھ میں سبز پاکستانی پاسپورٹ۔۔۔

معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے ان خاتون کی انتہائی پروقار شخصیت پر بہت پیار آ رہا تھا۔۔۔ میرا دل چاہا کہ میں ان کے ہاتھ تھاموں اور انہیں کہوں، چلو اماں میرے ساتھ چلو۔۔۔  اور میرے ساتھ رہو۔۔۔ میری نظر ان کےخوبصورت اور معصوم چہرے سے ہٹ ہی نہیں پا رہی تھی۔۔۔

تجسس کے ہاتھوں مجبور میں ان کے بچوں کی تاثرات بھی دیکھ رہا تھا۔۔۔ بیٹا شاید مجبور تھا کہ ماں کی پرواہ کرنے والا اب پاکستان میں کوئی نہیں، اس لیے اسے ساتھ لے جانا ضروری تھا۔۔۔  بہو انتہاء کی بے زار لگ رہی تھی۔۔۔ اور چہرے پر فرعونیت  نمایاں تھی۔۔۔ ایسا محسوس ہوا کہ کہہ رہی ہو۔۔ میرے بندے کی کمائی اب اس بڈھی پر بھی لگے گی۔۔۔ اور الٹا اس کی خدمت بھی کرنی پڑے گی۔۔۔  دونوں پوتے جو شاید چودہ پندرہ سال کے ہوں گے۔۔۔ ماں سے بھی زیادہ بیزار۔۔۔   جیسے باپ کو کہہ رہے ہوں۔۔۔ "پاپا، یہ ہم کو کہاں پولیوشن میں لے آئے ہو۔۔۔ وی ڈونٹ وانٹ ٹو کم بیک ہیر”

باپ بے چارہ بنا، کبھی اپنی بیوی کے تیور دیکھتا۔۔۔ کبھی اپنے بچوں کے نخرے۔۔۔ اور کبھی اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیتا۔۔۔ جس پر ماں کی آنکھوں میں تھوڑی سی چمک آتی، ایک مسکراہٹ چکمکاتی اور پھر غائب ہو جاتی۔۔۔

اسلام آباد ائیرپورٹ کی بے ہنگم اور گھٹیا سروس۔۔۔ انتہائی زیادہ رش۔۔۔ اور افسران کی سستی۔۔۔ ہر کام آہستہ آہستہ ہو رہا تھا۔۔۔ رات گئے کی دو پروازیں تھیں۔۔۔ اس درمیان۔۔۔ بزرگ خاتون کے جسم اور چہرے  پر تھکاوٹ کےآثار واضح تھے۔۔۔ لیکن اپنی بیٹے اور بہو پوتوں کا ساتھ ، ان جیسی تیزی سے دینا بھی چاہتی تھی۔۔۔ امیگریشن قطار میں کھڑے۔۔۔ خاتون نے اپنے بڑے پوتے کے چہرے کے قریب ہو کرہلکی مسکراہٹ کےساتھ اس سے کچھ بات کی۔۔۔ پوتا، جو شاید کسی قسم کے زعم میں مبتلا تھا۔۔۔ اس نے اپنی دادی کی بات سن کر ایسا منہ بنایا ، جیسے بات سن کر بھی کوئی احسان کیا ہو۔۔۔

میری آخری نظر اس خاتون پر تب پڑی جب امیگریشن کاونٹر عبور کر کے اس کی بہو اس کا ہاتھ تھامے، گویا اسے کھینچتے ہوئے جا رہی تھی۔۔۔ بہو رانی  شاید وہ وقت بھول گئی تھی جب یہی خاتون کتنی چاہ اور ارمانون سے اسے بیاہ کر اپنے گھر لائی تھی۔۔۔ اس کے ناز نخرے اٹھائے تھے۔۔۔ اسے اپنے بیٹے کے ساتھ کے لیے باہر بھیج دیا تھا۔۔۔ اب وہ اپنی بہو کے ہاتھوں مجبور تھی۔۔۔ کہ اگلی زندگی اسی کے گھر گزارنی تھی۔۔۔

دو دن گزر گئے واپس دبئی آئے۔۔۔ لیکن نا جانے کیوں میں اس خاتون کا چہرہ نہیں بھلا پا رہا۔۔۔ اس کے چہرے کی معصومیت میرےذہن پر کچھ انمٹ نقوش چھوڑ چکی ہے۔۔۔  بار بار اس خاتون کی مسکین مسکراہٹ یاد آتی ہے۔۔۔

بار بار اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے کے بچوں کو اس کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔ مجبوری سے نہیں۔۔۔دل سے۔۔۔ پوری محبت اور پیار سے۔۔۔


مخمصہ۔۔۔ ایک سوچ

کچھ ایسا کرنے کا جی چاہے، جس سے تھوڑا بہت سکون مل جائے۔۔۔۔ ابھی صرف سوچ ہی رہا ہو کہ وہ کام کرے۔۔۔ لیکن پھر خیال آئے کہ اوہ ہو۔۔۔ یہ تو منع ہے۔۔۔ گناہ ہے۔۔۔ سب کچھ بھول کر یہ کام کر بھی گزرے۔۔۔ تو خیالِ گناہ جینے نا دینے۔۔۔ بار بار ندامت دل کا دروازہ کھٹکھٹائے۔۔۔ بار بار آسمان کی جانب دیکھ کر آنسو بھر آئیں۔۔۔ چلتے چلتے ہاتھ جوڑ کر اللہ سے معافی بھی مانگے۔۔۔ پھر بھی سکون نا ملے۔۔۔ تو۔۔۔ یہ کیا معاملہ ہے۔۔۔؟ یہ کیا مخمصہ ہے۔۔۔؟


اللہ رے…

اکثر سوچتا ہوں، کہ آخر اس زندگی کی ساتھ انصاف کر پاوں گا۔۔۔ اس طرح جی پاوں گا کہ جیسے جینے کا حق ہے۔۔ کیا وہ سب کچھ کر پاوں گا، کہ جسے کرنے کے لیے زندگی بخشی گئی۔۔۔

یوں تو زندگی گزارنا اتنا مشکل بھی نہیں۔۔۔ کہ گزر ہی جاتی ہے کسی نا کسی طرح۔۔۔ ہاں، اس کے حقائق کے ساتھ زندہ رہنا اکثر نا ممکن سا ہو جاتا ہے۔۔۔ وہ حقائق جن کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں۔۔۔ جی ہی انہیں حقائق کے سر پر جاتی ہے۔۔۔

کیا ہمیشہ خوش نہیں رہا جا سکتا۔۔۔؟ کیا کسی اور کی خوشی میں خوشی ڈھونڈھی نہیں جا سکتی۔۔۔؟ کیا ہمیشہ اپنا غم ہی سب سے بڑا غم ہوتا ہے۔۔۔؟ کیا زندگی کسی اور کے لیے “جی” نہیں جا سکتی۔۔۔؟ کیوں نہیں ایسا ہوتا۔۔۔ کہ خود غرضی چھوڑ کر خود کو اور خود کی خوشیوں اور غموں کو کسی اور کو مکمل طور پر سونپ دیں۔۔۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔

کیا مجھ سمیت کوئی بھی زندگی سے انصاف کر سکا ہے۔۔۔؟ کیا سچے دل سے مطمئن ہو پایا ہے۔۔۔؟ کیا غموں کو اللہ کی مرضی کہہ کر نظر انداذ کرتاہے۔۔۔ اور کیا مسرتوں کے میلوں سےکسی بھی ڈر کے بغیر لطف اندوذ ہوا ہے۔۔۔؟

کبھی بہت ہی حقیقت پسندی سے اپنی اب تک گزری ہوئی زندگی کے بارے میں سوچوں تو یہ فقرہ ہمیشہ دماغ میں گونجتا ہے۔۔۔

What a Waste of Life…!!!

ہم جیئے جا رہے ہیں۔۔۔ غم پیئے جا رہے ہیں۔۔۔ شاعر نے تو کمال ہی کر دیا ۔۔۔ سمجھ گیا زندگی کی کیفیت کو۔۔۔ اور کہہ دیا۔۔۔ کہ غم پیئے جا رہے ہیں۔۔۔

زندگی بوجھ ہے کیا۔۔۔؟ کیوں گھسیٹتے پھر رہے ہیں اسے۔۔۔ ؟ جسے دیکھوں۔۔۔ وہ مجبورا ہی زندہ ہے۔۔۔ جیسے بس سانسیں لینے کی نوکری ملی ہو۔۔۔ اور اس نوکری کو “بادل ناخواستہ” کھینچنا ہی ہے۔۔۔ جب تک “یو آر فائرڈ” کا حکم نہیں آ جاتا۔۔۔

What a Waste of Life…!!!

مقصد ہی نہیں۔۔۔ بس آو، گزارو اور نکلو۔۔۔

یہی ہے زندگی۔۔۔۔ اللہ رے۔۔۔


تجربات اور زندگی کی اہمیت

زندگی کی ہر مشکل کسی نا کسی تجربے کی صورت ایک نیا سبق دیتی ہے۔۔۔  کسی  انتہا درجے کے آسان دنیاوی کام سے  لے کر کسی بے حد پیچیدہ مہم تک۔۔۔ زندگی ہمیں ہر لمحے کچھ نا کچھ نیا ضرور سکھا تی رہتی ہے چاہے ہم سیکھنا چاہیں یا نہیں۔۔۔  اکثر مجھے محسوس ہوتا ہےکہ یہ تجربے اتنے آسان نہیں ہوتے لیکن اگر ہم کچھ لمحے رکیں اور زندگی کی جانب ایک نظر دوڑائیں تو یہ تجربات ہمیں اپنے ہر گزرے ہوئے لمحے ، ہر کیفیت ،  ہر مایوسی  اور ہر خوشی میں نظر آتے ہیں۔۔۔  یہ تجربات ہر اداسی، ہر سکون، ہر تکلیف  اور ہر مسرت میں ہوتے ہیں۔۔۔  ہر تجربہ ایک نئے  اور اہم تجربے کا رستہ بنتا ہے ۔۔۔ اور ہر وہ تجربہ جسے ہم نظر انداز  کرتے ہوئے اس سے کچھ نہیں سیکھتے ، بار بار ہمیں دستک دیتا ہے ۔۔۔اور تب تک دستک دیتا رہتا ہے جب تک ہم اس سے کچھ سبق حاصل نہیں کرجاتے۔۔۔  بہر حال، زندگی ہمیں نت نئے تجربات سے نوازتی رہتی ہے۔۔۔  اور جتنا سبق ہم سیکھ لیتے ہیں ، زندگی اتنی ہی آسان ہو جاتی ہے۔۔۔

یوں تو ہم سب کا ایمانِ کامل ہے کہ ہماری  زندگی  فانی ہے۔۔۔  عنقریب  ہماری زندگی کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو جائے گا۔۔۔  نا ہمیں کچھ لمحات میسر ہوں گے ، نا کچھ اضافی گھنٹے اور نا ہی خیرات میں دیئے گئے کچھ دن۔۔۔  وہ ساری دولت جو ہم جمع کرتے ہیں، سنبھالتے ہیں اور سنبھال کر بھول جاتے ہیں، کسی اور کی میراث بن جائے گی۔۔۔  ہماری دولت، حسن،  زہانت،  شہرت، عارضی طاقت مرجھا کر مٹی میں مل جائے گی۔۔۔  اور پھر اس بات کی  کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی کہ ہمارے پاس کیا کیا تھا۔۔۔۔!!!  ہمارے بغض، ہماری نفرتیں، ہماری ناکامیاں اور ہمارے سب حسد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں گے۔۔۔  ہماری امیدیں،   ہماری آرزویں اور  ہمارے سب منصوبے اختتام کو پہنچ جائیں گے۔ وہ سب فتوحات  اور شکستیں جو کبھی زندگی  میں بہت اہمیت رکھتی تھیں، اچانک مدہم ہو جائیں گی۔۔۔ اور آخر کار   ہمیں یاد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔  تو آخر  قدر کس بات کو ہوگی۔۔۔؟  "ہمارا” تخمینہ کیسے لگایا جائے گا۔۔۔  اور ہماری زندگی کی کیا قیمت لگے گی۔۔۔؟

اہمیت اس بات کی نہیں ہوگی کہ ہم نے کیا خریدا۔۔۔ بلکہ ہم نے کیا  "تعمیر کیا”۔۔۔
اہمیت ہمارے پانے کی نہیں۔۔۔ بلکہ ہمارے صدقِ دل سے بانٹے ہوئے کی ہوگی۔۔۔
ا ہماری جیت کی نہیں۔۔۔  بلکہ ہماری اہمیت کی ہوگی۔۔۔
ہمارے  علم  حاصل کرنے کی نہیں۔۔۔ بلکہ علم  کی روشنی پھیلانے کی ہوگی۔۔۔
ہماری قابلیت کی نہیں۔۔۔ بلکہ ہمارے کردار کی ہوگی۔۔۔
ہمارے قول کی نہیں۔۔۔ بلکہ ہماری سوچ کی ہوگی۔۔۔
اہمیت ہمارے تعلقات کی تعداد کی نہیں۔۔۔ بلکہ ان اچھی یادوں اور الفاظ  کی ہوگی جو ہمارے مرنے کے بعد ہمارے تعلق ہمارے لیے استعمال کریں گے۔۔۔
اہمیت ہماری یادوں کی نہیں۔۔۔  بلکہ ان کی یادوں کی ہوگی جو ہم سے پیار کرتے ہیں۔۔۔
اہمیت اس بات کی ہوگی کہ ہماری قربانی ، ہمدردی اور ہمت کیسے نئی مثالیں قائم کرتی  ہے۔۔۔  ایک حادثہ کی صورت گزارنا  کوئی زندگی نہیں۔۔۔  معنی خیز  زندگی ایک صورتِ حال کی بجائے ایک انتخاب کی طرح جینا  ہے۔۔۔

زندگی میں کئی ایسے حادثات اور واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں کمزور، بے وقعت اور دل شکستہ بنا دیتے ہیں۔۔۔  جب ہمیں اپنا  وجود ایسی ریت کے طرح  لگتا ہے جوایک گرداب کی صورت زمین میں ڈوبے جا رہی ہے۔۔۔  اور ہم اس گرداب  سے نکلنے کے لیے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔   باوجود یہ کہ ہمیں مشکل سے نکالنے کے لیے  صرف مضبوط سہارا ہی  نہیں بلکہ مضبوط خود ارادی بھی درکار ہوتی ہے۔۔۔  اور یہ مضبوط ہاتھ کسی اور کا نہیں بلکہ صرف ہمارے پروردگار کا ہی ہو سکتا ہے۔۔۔ اور ہمارے رب نے اپنی کتاب میں ہر مشکل سے نپٹنے اور کامیاب ترین زندگی گزارنے کا ہر طریقہ لکھ دیا ہے۔۔۔

ہم اپنی ساری زندگی دوسروں کو خوش  کرنے  اور متاثر کرنے میں گزار دیتے ہیں۔۔۔  اور اس کوشش میں اس حد تک گزر جاتے ہیں کہ  دنیا کو "نہیں” کہنا بھول جاتے ہیں۔۔۔   اور یہاں تک کہ ہر وہ کام جاتے ہیں جو اللہ کی مرضی اور حکم کے خلاف ہو۔۔۔ جب کہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم نے اپنے رب کو کیسے خوش اور راضی کیا۔۔۔   انتخاب تو ہمارے نصیب میں ہے۔۔۔ کہ ہم کس کی خوشی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔۔۔ خالق کی یا مخلوق کی۔۔۔

زندگی بہت پیچیدہ ہے۔۔۔ اور ہماری منزل جنت ہونی چاہیے۔۔۔  دعا ہے کہ اللہ ہمیں ایک نیک  اور معنی خیز زندگی جینے کی استطاعت اور ہمت دے۔۔۔ اور ہمیں جنتِ فردوس میں جگہ عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔۔


احساسات

منظر جیسے بھی ہوں، اپنے اندر ایک احساس رکھتے ہیں۔۔۔ نگاہ جس پر پڑے ایک نیا  اثر،  بینائی کے ساتھ محسوس ہوتا ہے۔۔۔ ماحول اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔ خوشگوار احساسات، اداس سائے، خوش گمانیاں، آس، بے یقینی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور۔۔۔ انہی جیسے احساسات پر مبنی شب و روز ہیں، جو گویا گزرے ہی چلے جا رہے ہیں۔۔۔ ہر پل ایک نیا احساس دل ودماغ کو ایک نئی راہ دکھاتا ہے۔۔۔

مگر جو پل بیت جاتے ہیں ، وہ بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔ کم از کم کچھ ہونے کا احساس تو دلاتے ہیں۔۔۔ کوئی خوشی ہو یا کیسا بھی غم ہو۔۔۔ انسان اس کو جھیل ہی لیتا ہے۔۔۔ مگر جو وقت آنے والا ہے، اس کے انتظا ر کے کیا ہی کہنے۔۔۔!!!

اس پر مزید یہ کہ انسان سداکا خوش گمان ٹھرا۔۔۔ کتنی ہی بے یقینی کیوں نا ہو۔۔۔ ایک بجھتا دیا اپنے لرزتے ہاتھوں کے حصار میں لیے رہتا ہے۔۔۔ ناجانے کب اس کی لو جان پکڑ لے۔۔۔ یا اس دیے کے کشکول میں کچھ تیل بھیک میں مل جائے ، جو اس کو کچھ اور پل ، کچھ اور گھڑیاں جلائے رکھے۔۔۔

دیے کا تو کام ہی ہے جلنا، اور آخر ایک دن خاک ہو جانا۔۔۔ مگر ان لرزتے ہاتھوں کا کیا جو اس کو زندگی دینے کی کوشش میں خود کو تنگ اور پریشان کرتے رہے، کہ کاش کوئی آس ، کوئی امید اس دیے کی لو کو کچھ سمے جلتا رکھے۔۔۔

صبح کا منظر کتنا خوشگوار ہوتا ہے۔۔۔ ہر نئی صبح ، سنا ہے ایک نیا پیغام لاتی ہے۔۔ مگر جس طرح اس صبح کا بھی زوال ہے، اسی طرح۔۔۔ زوال کو بھی کسی نئے عروج کی کوکھ سے جنم لینا ہے۔۔۔ اب اس جنم لینے میں جتنی اذیت ہو، وہ تو اس ماحول کا مقدر ٹھرا۔۔۔

اسی عروج و زوال میں بیت رہی ہے زندگی میری۔۔۔


پردیس کی عید اور جدائی

عید کا دن یہاں کئی لوگوں کے لیے اداسی لاتا ہے۔۔۔ آج صبح مسجد میں نمازِ عید کے بعد کئی ایسے چہرے دیکھے ، جو بے رنگ اور بے تاثر تھے۔۔۔ان کو شاید امید اور آس تھی کہ کوئی اپنا آئے اور انہیں عید مبارک کہہ کر گلے لگا لے۔۔۔ اور وہ گھر جائیں تو اپنے والدین، بیوی بچوں کے ساتھ عید کا مزہ لیں۔۔۔ لیکن، مجبوریِ روزگار انہیں اپنوں سے بہت دور لے آیا ۔۔۔ جہاں تنہائی میں یہ لوگ انہیں یاد کر کے رو سکتے ہیں، سسکیاں بھر سکتے ہیں لیکن مہنگے کالنگ چارجز ہونے کے سبب اپنے پیاروں سے تفصیلاً بات نہیں کر سکتے۔۔۔ چھٹی نا ملنے اور ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نا رکھنے کے باعث اپنے لوگوں کے ساتھ عید نہیں منا سکتے۔۔۔


میں خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ میرے والدین، بھائی، بہنیں اور ان کے اہل و عیال، میری بیگم اور بیٹی میرے ساتھ ہیں۔۔۔ میں گھر آیا، ان سب کو دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں اپنوں کے ساتھ ہوں۔۔۔ سب نے بیٹھ کر ساتھ ناشتہ کیا، ہنسے کھیلے اور عید کو "عید” کی طرح منایا۔۔۔

اب جب سب سکون سے اِدھر اُدھر ہو گئے ہیں۔۔۔ تو میری آنکھوں کے سامنے وہی اداس چہرے پھر گھوم رہے ہیں۔۔۔ میں وہ کیفیات سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں، جن سے میرے پردیسی بھائی گزر رہے ہیں۔۔۔

کاش جدائی جیسی کوئی زحمت ہو ہی نا۔۔۔ سب مل جل کر ہمیشہ ہمیشہ، ہر حال میں ساتھ رہیں۔۔۔ ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں ایک دوسرے کا کندھا بنیں۔۔۔۔ کاش میرے پردیسی بھائی، ہمیشہ خوش رہیں اور ہنستے کھیلتے رہیں۔۔۔ کاش یہ مجبوری روزگار جدائیاں نا بنائے۔۔۔


میری موت

چھوڑ دو مجھے، مت لے کر جاو۔۔۔ میں نہیں جاتا تمہارے ساتھ۔۔۔ مجھے یہ کپڑے کیوں پہنا رکھے ہیں۔۔۔ کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے۔۔۔ چھوڑ دو مجھے، مجھے میرے گھر والوں کے پاس رہنے دو۔۔۔ یہ سب کیوں رو رہے ہیں۔۔۔ مجھے کہاں بھیج رہے ہیں۔۔۔ خدا کے واسطے مجھے چھوڑ دو۔۔۔ مجھے نہیں جانا۔۔۔

تم لوگ میری بات کیوں نہیں سنتے۔۔۔ کیا میری آواز تم کو نہیں آتی۔۔۔ کیوں مجھے نظر انداز کر رہے ہو۔۔۔ تم لوگ مجھے یہیں چھوڑ دو۔۔۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یہ کہاں چھوڑ دیا مجھے۔۔۔ اتنا اندھیرا کیوں ہے یہاں۔۔۔ اوہ ہو، اتنی مٹی۔۔۔ اتنی گرمی۔۔۔ اف، کوئی مجھے اس کپڑے سے نجات دے۔۔۔ میں تو گرمی سے پگھل رہا ہوں۔۔۔ کیسا گھٹا ہوا ماحول ہے۔۔۔ میری تو جان نکل رہی ہے۔۔۔

کوئی ہے۔۔۔ مجھے یہاں سے باہر نکالو۔۔۔ مجھے یہاں سے باہر نکالو۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔ آپ کون ہیں؟ او ر یہاں کیا کر رہے ہیں؟

ہم منکر نکیر ہیں اور تم سے تمہاری زندگی کے بارے میں پوچھنے آئے ہیں۔

کیا کہا؟ کون ہو تم؟ کیا میں مر چکا ہوں؟ تم لوگ کیا پوچھو گے مجھ سے؟ مجھے جانے دو۔۔۔ مجھے واپس میں دنیا میں جانے دو۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے تم کو۔۔۔ مجھے جانے دو۔

شور مت کرو، تم مر چکے ہو اور اب واپسی کا کوئی رستہ نہیں۔ اب ہمارے سوالات کا جواب دو۔۔۔ بتاو کہ تمہارا رب کون ہے؟

میرا رب۔۔!!! میرا رب۔۔۔ کون ہے میرا رب۔۔۔ مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا۔۔۔ مجھے جانے دو۔۔۔ مجھے یاد نہیں میرا رب کون ہے۔۔۔

تمہارا رسول کون ہے؟

خدا کے واسطے مجھے جانے دو۔۔۔ مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا۔۔۔ میرا رسول کون ہے مجھے نہیں معلوم۔۔۔ مجھے جانے دو۔۔۔

تمہارا مذہب کیا ہے؟

مذہب نہیں معلوم۔۔۔ مجھے نہیں معلوم۔۔۔ میرے آنسووں پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا رب کون ہے، میرا رسول کون ہے اور میرا مذہب کیا ہے۔۔۔؟ مجھے کچھ نہیں معلوم۔

تمہارا رب اللہ تبارک تعالیٰ ہے، تمہارے رسول محمدﷺ ہیں اور تمہارا مذہب ، اسلام ہے۔ اور تمہیں کچھ یاد اس لیے نہیں آ رہا، کہ تم نے اپنی ساری زندگی اپنے رب اور اس کے احکامات کو جھٹلایا ہے۔۔۔ اس کی نافرمانی کی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود کو مانتے تو اس کے احکامات پر عمل کرتے، احکامات کو مانتے تو محمد ﷺ کی سنت پر عمل کرتے اور محمدﷺ کی سنت کو مانتے تو دین اسلام کے ہر ہر حکم اور اصول پر پابند ہوتے۔

اے ابن آدم، تم نے اپنی زندگی برباد کر دی۔ شور شرابے اور کفر میں گزار دی۔ عیش و عشرت میں مبتلا رہے اور اپنا رب نا پہچان سکے۔ روزانہ پانچ دفعہ اللہ کی پکار سنتے رہے کہ وہ تمہیں بار بار اپنے پاس بلاتا رہا کہ اس کی طرف آو، نماز پڑھو اور اس کو یاد کرو، لیکن تم نے اللہ کی پکار کو نظر انداز کیا، اب تمہیں نافرمانی کی سزا ملے گی۔ تمہارے ہر گناہ کی سزا ملے گی۔

مجھے معاف کر دو۔۔۔ مجھے ایک بار پھر دنیا میں بھیج دو۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اللہ کی عبادت میں اپنی ہر سانس مصروف کر دوں گا۔۔۔ اس کے ہر حکم کا تابع رہوں گا۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔۔۔

نہیں اے بشر، تیری مدت ختم ہو چکی۔۔۔ اب تو واپس نہیں لوٹ سکے گا۔ اب تو قیامت تک سزا بھگتتا رہے گا۔ اب آخری فیصلہ اللہ ہی روزِ قیامت کرے گا۔ تب تک تو مجرم ٹھرا اور سزا تیرا مقدر ٹھری۔

بچاو۔۔۔ کوئی تو مجھے بچاو۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔ اے اللہ مجھے معاف کر دے۔۔۔ مجھے معاف کر دے۔۔۔ مجھے معاف کر دے۔۔۔ مجھے قبر کی ہولناکی سے بچا۔۔۔ اے اللہ مجھے بچا۔۔۔ اے اللہ میرے گناہ معاف فرما دے۔۔۔

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے تصویر پر کلک کریں

 



میری دادی اماں

ابو نے اپنی گود میں بیٹھی علیزہ سے پوچھا۔۔۔ بیٹا دادی امی کہاں ہیں۔۔۔ علیزہ کی انگلی دیوار پر لگی میری دادی اماں کی تصویر کی طرف اٹھ گئی۔۔۔ پھر علیزہ نے تصویر کی جانب اپنے دونوں بازو پھلا دئیے۔۔۔ ابو اٹھے اور علیزہ کو دیوار تک لے گئے۔۔۔ علیزہ نے اچک کر تصویر دیوار سے اتاری اور اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر پہلے اپنے سینے سے لگا لیا اور پھر اپنے ہونٹ دادی کی تصویر پر لگا دیئے، ایسے کہ جیسے اسے چوم رہی ہو۔۔۔

میں بغور ابو اور علیزہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ یہ ان دونوں کا روز کا معمول ہے۔۔۔ ابو روز علیزہ سے دادی اماں کے بارے میں پوچھتے ہیں اور علیزہ ایسے ہی دادی اماں کو چومتی ہے۔۔۔

دادی اماں کو ہم سے بچھڑے تین سال ہو چکے ہیں۔۔۔ کل یہی کچھ دیکھتے ہوئے بہت کچھ یاد آ گیا۔۔۔ سن 2006 میں، میں پاکستان گیا۔۔۔ دادی اماں کی گود میں سر رکھے میں نے مذاقا ان سے ابو کی شکایت کرتے ہوئے کہا، دادی امی، ابو میری شادی کیوں نہیں کروا رہے۔۔۔ اب اتنا انتظار نہیں ہوتا۔۔۔ دادی اماں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پنجابی میں کہا۔۔۔ ”میں تیرے پیو نال گل کراں گی۔۔۔”یہ سننا تھا اور میں نے ابو کو فون ملا کر دادی اماں کو پکڑا دیا۔۔۔ دادی اماں ابو سے کہنے لگی۔۔۔ ”وے اقبال۔۔۔ عمران بڑا پریشان پھردا ہے۔۔۔ گل کی اے؟”۔۔۔ ابو نے لاعلمی کا اظہار کیا۔۔۔ تو دادی نے انہیں مصنوعی غصے سے کہا۔۔ ” میں تینوں کہندی پئی آں، میرے منڈے دا ویا جلدی کر دے۔۔ “ میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔۔۔ ابو نے انہیں جانے کیا کیا کہانیاں سنائیں۔۔۔ لیکن دادی اماں بٖضد تھیں کہ میرے منڈے دی جلد شادی ہونی چائیدی اے۔۔۔

دادی اماں کی وفات سے ایک ہفتہ پہلے، میں نے ان کی صحت کا پوچھنے کے لیے انہیں پاکستان فون کیا۔۔۔ تو طبیعت کافی خراب تھی۔۔۔ کہنے لگیں۔۔۔”پتر۔۔۔ ہون لگدا اے کہ بلاوا آن والا اے۔۔۔ “۔ میں نے کہا کہ ”دادی امی۔۔۔ اللہ آپ کو صحت دے۔۔۔ ابھی تو آپ نے ہمارے بچوں کے ساتھ بھی کھیلنا ہے۔۔۔ “

میرے چھوٹے بھائی کا یہیں دبئی میں رشتہ طے ہوا۔۔۔ ابو نے پاکستان دادی امی کو فون کیا۔۔۔ اور تقریبا ایک گھنٹہ بات ہوئی۔۔۔ دادی اماں نے بھائی کے ساس سسر سے بھی بات کی۔۔۔ سب کو خوب دعائیں دیں۔۔۔

اگلے دن۔۔۔ شام کو چاچو کو فون آیا۔۔۔ کہ دادی امی اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ صبح سے دادی اماں بہت خوش تھیں۔۔۔ سب رشتے داروں کو خود فون کر کے بتایا کہ میرے چھوٹے منڈے دا وی رشتہ ہو گیا۔۔۔ میں اپنے سارے بچے پگتا لئے۔۔۔ شام کو اچانک طبیعت خراب ہوئی۔۔۔ ہسپتال لے کر جاتے ہوئے رستے میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔۔۔

میری منگنی میری دادی نے خود کروائی تھی۔۔۔ اور میری جانب سے میری منگیتر کو انگوٹھی بھی خود انہوں نے پہنائی تھی۔۔ان کے انتقال کے ایک سال بعد میری شادی ہوئی۔۔۔۔ میرے ابو بہت اداس تھے۔۔۔خوشی کے اس موقع پر دادی ہمارے ساتھ نہیں تھیں۔۔۔

دادی کے ساتھ ابو کا پیار بہت ہی زیادہ تھا۔۔۔ دادی کا ہر حکم مانتے تھے۔۔۔ اور ہر حکم کی تعمیل کے بعد بہت خوش ہوتے تھے۔۔۔ ہمیں جب بھی بات ابو سے منوانی ہوتی تھی۔۔۔ تو دادی اماں سے کہلواتے تھے۔۔۔ اور ابو ان کا حکم ٹال ہی نہیں سکتے تھے۔۔۔

آخری عمر میں دادی اماں کی نظر کافی کمزور ہو گئی تھی۔۔۔ ایک دفعہ میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ تو اچانک کہنے لگیں۔۔۔ "پتر تو سگریٹ پینا ایں۔۔۔” میں نے گھبرا کر جھوٹ بول دیا کہ نہیں دادی اماں۔۔۔ میں نے تو کبھی سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔۔۔ ”پتر چوٗھٹ نا بول۔۔۔ تیرے دند پیلے ہوندے جا رے نے۔۔۔”

دادی اماں کے ساتھ میرا بہت کم وقت گزرا۔۔۔ لیکن۔۔۔ ان کا پیار ہمارے لیے بے بہا تھا۔۔۔ میرے ساتھ ان کا بہت مذاق تھا۔۔۔ ہر وقت ان کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا رہتا۔۔۔ اور دادی اماں خوشی خوشی اپنے ہمسایوں کو میرے کارنامے بتاتی۔۔۔ ‘اج میرے منڈے نے مینوں اے کیا۔۔۔ اج میرا منڈا اے کردا پیا سی۔۔۔’

کل علیزہ دادی اماں کی تصویر چوم رہی تھی۔۔۔ اور میں یادوں میں گھرا ہوا تھا۔۔۔ میرے منہ سے نکلا۔۔۔ کاش آج دادی امی زندہ ہوتی تو وہ کتنی خوش ہوتیں۔۔۔

اللہ دادی اماں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔۔۔ آمین


ان گنت سوالات

میرے پاس لکھنے کو کچھ نہیں ہے اب۔۔۔ بہت مایوس ہو چکا ہوں۔۔۔ کیا لکھوں۔۔۔ کیوں لکھوں۔۔۔؟ کس کے لیے لکھوں۔۔۔؟ میری قوم سو چکی۔۔۔ میری قوم کو میرے الفاظ کی ضرورت نہیں۔۔۔ وہ سن نہیں سکتی۔۔۔ اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو گئی۔۔۔

کیا میری قوم مر چکی۔۔۔؟ کیا واقعی میں مردہ قوم میں شامل ہوں۔۔۔؟ لیکن اگر قوم مردہ ہے تو برداشت کی حس کیوں نہیں ختم ہو رہی۔۔۔؟

کیا میرے الفاظ کسی کو تسلی دے سکتے ہیں۔۔۔؟ کیا میرے الفاظ مجھے تسلی دے سکتے ہیں۔۔۔؟ کیا میرے الفاظ میری سوئی ہوئی مردہ قوم کو تسلی دے سکتے ہیں۔۔۔؟

کیا میری سوچ کسی کی سوچ بدل سکتی ہے۔۔۔؟ کیا میری سوچ میری قوم کی سوچ بدل سکتی ہے۔۔۔؟ کیا میری قوم میری سوچ پر عمل کر سکتی ہے۔۔۔؟

کیا میری سوئی ہوئی مردہ قوم میں پھر روح پھونکی جائے گی۔۔۔؟ کیا میری سوئی ہوئی مردہ قوم پھر جاگ اٹھے گی۔۔۔؟ کیا میری سوئی ہوئی مردہ قوم سوچ سکے گی۔۔۔۔؟ کیا میری سوئی ہوئی مردہ قوم سمجھ سکے گی۔۔۔؟

کیا میرے الفاظ مجھے ہمت دے سکتے ہیں۔۔۔؟ کیا میرے الفاظ میری قوم کو ہمت دے سکتے ہیں۔۔۔؟

کتنے سوالات ہیں میرے پاس۔۔۔ اور میرے پاس لکھنے کو پھر بھی کچھ نہیں۔۔۔!!!


“دائرہ فکر

“دائرہ فکر” یہاں سے مستقل طور پر دوسرے ڈومین پر شفٹ ہو چکا ہے۔۔۔ براہ مہربانی میرے بلاگ کی تحاریر اور تبصروں کے لیے نیچے لکھے ایڈریس پر کلک کریں۔۔۔

http://emraaniqbal.com

شکریہ

عمران اقبال


میں جاہل ہوں۔۔۔

میں بڑا ہی جاہل بندہ ہوں جی۔۔۔ مجھے نا تو سائنس کا علم ہے اور نا ہی فلسفے سے کوئی دلچسپی۔۔۔ مجھے نا تو مشکل باتیں سمجھ آتی ہیں۔۔۔ اور نا ہی میں زومعنی گفتگو کر سکتا ہوں۔۔۔

میری جہالت کی انتہا دیکھیے کہ مذہب میں فلسفے کی شمولیت کا قائل نہیں ہوں۔۔۔ اندھوں کی طرح مذہب کو اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے۔۔۔ مذہب بھی کونسا۔۔۔ ساڑھے چودہ سو سال پرانا۔۔۔ وہ مذہب جسے دنیا آج دقیانوس کہلانے پر تلی ہوئی ہے۔۔۔ لیکن ناجانے کیوں۔۔۔ مجھے میرا مذہب اتنا اچھا کیوں لگتا ہے۔۔۔

میں اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں۔۔۔ لیکن مجھے خدا کی خدائی میں کوئی شک نہیں نظر آتا۔۔۔ مجھے بس یہ سمجھ آتی ہے کہ ہر سبب کے پیچھے مسبب الاسباب کا ہونا لازمی ہے۔۔۔ ہر فکر کے پیچھے ایک مفکر کا ہونا واجب ہے۔۔۔ جب میں "ایاک نعبد و ایاک نستعین” پڑھتا ہوں تو پھر مجھے کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں رہتی۔۔۔ بس آنکھیں بند کیے ایک خدا کے وجود کا یقین کر لیتا ہوں۔۔۔ وہ خدا جس نے کائنات کی تخلیق کی، آسمان بنائے اور زمین بنائی۔۔۔ ہمیں اشرف المخلوقات بنایا۔۔۔ اور ہمیں وہ سب کچھ دیا جس کے بغیر زندگی نا ممکن لگتی ہے۔۔۔ میری ناقص سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ کیوں کچھ فلسفی اس کے وجود کے دلائل ڈھونڈتے ہیں۔۔۔ کچھ نا ہوتا تو بھی میرا خدا ہوتا۔۔۔ اور کچھ بھی نا رہے گا تو بھی میرا اللہ ہو گا۔۔۔

مجھ میں اتنی سمجھ بھی نہیں کہ انبیاء کے تقدس اور وجود پر نظر ثانی کر سکوں۔۔۔ مجھے انبیاء ہر غلطی سے مبرا نظر آتے ہیں۔۔۔ مجھ جیسے جاہل کا ایمان ہے کہ ہر نبی اللہ کی زبان بولتے تھے۔۔۔ ہر رسول اللہ کا پیغام پہنچاتے تھے۔۔۔ اور اللہ کی زبان اور پیغام کبھی غلطی نہیں کر سکتے۔۔۔ انبیاء تو معصوم تھے۔۔۔ انبیاء کو جو کام اللہ نے دے کر بھیجا۔۔۔ سب نے اپنا اپنا کام کیا اور واپس اپنے محبوب کے پاس لوٹ گئے۔۔۔

میرا جیسا گنوار یہ سوچتا ہے۔۔۔ کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں بتا دیا۔۔۔ چاہے ہم نے دیکھا یا نہیں دیکھا۔۔۔ اس پر ایمان لانا فرض ہے۔۔۔ چاہے وہ امام  مہدی ہوں، دجال ہو، عیسی علیہ السلام کا ظہور ہو یا یا جوج ماجوج ہوں۔۔۔ مجھے یقین ہے۔۔۔ کہ وہ آئیں گے۔۔۔ ویسے ہی جیسے میرا اس بات پر یقین ہے کہ اللہ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا کی اصلاح کے لیے مامور کیے۔۔۔ میں ان سے بھی نہیں ملا۔۔۔ لیکن ان کا وجود تھا۔۔۔

مجھے قرآن سے عشق ہے۔۔۔ کہ مجھے قرآن کی بتائی ہوئی ہر تعلیم سمجھ آتی ہے۔۔۔ مجھے کوئی اور کتاب اچھی نہیں لگتی کہ ہر دوسری کتاب کا اپنا علیحدہ موقف ہے۔۔۔ جب کہ قرآن میرا انسائیکلوپیڈیا ہے۔۔۔ جب بھی کوئی مشکل ہوئی۔۔۔ قرآن کھولا اور اس میں سے ہر مشکل کا حل ڈھونڈ لیا۔۔۔ میرے جیسے گنوار بندے کے لیے اللہ نے کیا آسان حل دے دیا۔۔۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا اندھا یقین ہے۔۔۔ کہ ہر وہ لفظ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے نکلا۔۔۔ وہ میرے اللہ کا تھا۔۔۔ زندگی بہترین طریقے سے گزارنے کے جو اصول مجھے حدیث سے ملے۔۔۔ وہ مجھے سائنس نہیں دے سکا۔۔۔ میرے کند دماغ کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ ہزار کوششوں کے باوجود حدیث سے منکر حضرات، اب تک اپنے مقاصد میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے۔۔۔ فلسفہ اور سائنس کے کلیے استعمال کرتے کرتے وہ اتنے پرسکون کیوں نہیں، جتنا میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت کو پورا کر کے ہوتا ہوں۔۔۔ کیا سنت اور حدیث رسول پر عمل کرنا زیادہ آسان ہے۔۔۔ جی۔۔۔ آسان تو ہوگا۔۔۔ ورنہ میرے جیسے کاہل اور جاہل انسان اسے کبھی نا اپناتے۔۔۔

میری جاہلانہ سمجھ بھی یہاں آ کر رک جاتی ہے ۔۔ کہ میں وہ سارے کام کرنے کی کیوں کوشش کرتا ہوں جو مجھے پر میرے اللہ نے فرض کیے ہیں۔۔۔ یا جن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی ہے۔۔۔ اگر خدا نا ہوتا تو نماز کس لیے پڑھتا، روزہ کس لیے رکھتا، زکوٰۃ کس کے حکم سے دیتا۔۔۔ نیکی کیوں کرتا۔۔۔ کماتا کس کے لیے۔۔۔؟ یہ کام ہمیں کس نے کرنے کے لیے کہا۔۔۔؟ کیوں کہا۔۔۔؟ بس کہہ دیا اور ہم نے مان لیا۔۔۔ اب کرنا تو ہے۔۔۔ فرض جو ہے۔۔۔

جب یہ سب سوچتا ہوں تو مجھے خود کے جاہل، ان پڑھ اور گنوار ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔۔۔ کہ آنکھ بند کیے میں جس نبی کی پیروی کر رہا ہوں، جس دین کو اپنا کے بیٹھا ہوں۔۔۔ اور جس خدا کی عبادت کرتا ہوں۔۔۔ وہ ہی حقیقت ہیں۔۔۔ اور لاکھ فلسفہ دوڑا لیں۔۔۔ حقیقت نہیں بدلے گی۔۔۔ لاکھ لاجیکس پیدا کر لیں۔۔۔ وجود الہیٰ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔۔۔۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی سائنس اور فلسفے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔۔۔


سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔۔۔

بیس سال کا تھا جب سگریٹ نوشی کی شروعات کی۔۔۔ فیشن کے طور پر نہیں بس ایویں۔۔۔ دراصل، نوکری کے سلسلے میں گھر سے دور رہتا تھا۔۔۔ ڈیوٹی کے بعد اپنے کمرے میں بند ہو جاتا تھا اور سوشل زندگی نا ہونے کے برابر تھی۔۔۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے ایک بار سگریٹ جلا لی۔۔۔ پھر وہ دن اور آج کا دن سگریٹ نوشی نے میرا ساتھ نا چھوڑا۔۔۔ دس سال سے دن کی ایک ڈبی ختم کرنا معمول ہو چکا ہے۔۔۔ گھر والوں نے بہت سمجھایا۔۔۔ لیکن سب کے مشورے ایک کان سے سنے اور دوسرے سے اڑا دیے۔۔۔ شروع میں کہا کرتا تھا کہ جب چاہوں گا سگریٹ چھوڑ دوں گا۔۔۔ لیکن یہ دعویٰ بھی فضول ہی تھا۔۔۔کہ خاک چھوٹتی ہے منہ سے لگی ہوئی۔۔۔ ابو تو غصے میں یہاں تک کہتے کہ سگریٹ پیتاہے تو شراب بھی پیتا ہو گا۔۔۔ مجھے دیکھتے، میرے چھوٹے بھائی نے بھی سگریٹ نوشی شروع کر دی۔۔۔ اور اس کا الزام آج تک میرے سر پر آتا ہے۔۔۔ اور سچ بھی ہے۔۔۔ میں نا پیتا تو شاید وہ بھی نا پیتا۔۔۔

 

ws_Sketch_of_a_smoker_1024x768

اب تیس سال کی عمر میں  کافی عرصہ سے محسوس کر رہا تھا کہ دس قدم چلتے ہی میرا سانس پھول جاتا ہے۔۔۔ تھوڑا سا بھی مشقت کرنے سے اپنی سانس پر قابو رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔ پسینہ پسینہ ہو جاتا ہوں۔۔۔ توند بھی آہستہ آہستہ آگے کی جانب کھسک رہی ہے۔۔۔ بازوں میں طاقت نہیں رہتی اور ٹانگیں زیادہ بوجھ اٹھا نہیں پا رہی۔۔۔ وزن بھی بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔

اب جب یہ ساری علامات آہستہ آہستہ میرے سامنے آئیں تو مجھے کچھ کچھ پریشانی شروع ہو گئی کہ کہیں کوئی بڑا مسئلہ نا ہو جائے۔۔۔ صحت مزید خراب نا ہو جائے۔۔۔ اور میں بھری جوانی میں ہی بڈھا نا ہو جاوں۔۔۔

گھر کے قریب نیا جم کھلا تو سوچا بہت ہو گئی۔۔۔ اب کچھ مشقت کی جائے۔۔۔ شاید طبیعت کچھ سنبھل جائے۔۔۔ اور سٹیمنا بھی بہتر ہو جائے۔۔۔

دو دن جم میں مشقت کے بعد ہی یہ اندازہ ہو گیا ہےکہ میرے جسم میں سگریٹ نوشی نے اپنا وہ زہر چھوڑا ہے جس نے مجھے عمر سے قبل ہی کمزور کر دیا ہے۔۔۔میرے لیے دس منٹ ٹریڈ مل پر جاگنگ کرنا بھی عذاب جان ہو گیا ہے۔۔۔ سائیکلنگ کرنا تو اور مشکل۔۔۔ کہ دو پیڈل چلے نہیں اور سانس پھول گئی اور سارا جسم پسینے سے نہا گیا۔۔۔۔ شرمندگی الگ ہوتی ہے کہ میری ہی عمر والے لوگ بھاگے جا رہے ہیں اور میں۔۔۔ بس دو قدم۔۔۔!!!  گھر کے باہر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو دل چاہتا ہے کہ کاش میرا سٹیمنا بھی ان جیسا ہو جائے۔۔۔

بڑی شد و مد کے بعد اب سوچ لیا ہے کہ سگریٹ نوشی ترک کرنے کا وقت آ گیا ہے۔۔۔ اتنی ہمت تو نہیں ہے مجھ میں کہ یک دم چھوڑ دوں۔۔۔ پلان کے مطابق، روز کی بنیاد پر سگریٹوں کی تعداد میں کمی کرنی ہوگی۔۔۔ اور چاہے جتنا بھی مشکل ہو، جم میں محنت کرنی ہوگی۔۔۔ تاکہ میں اپنی بیٹی کے لیے صحت مند رہ سکوں۔۔۔ کہ میں اس کی خوشیاں دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔

میری گزارش ہے سب سے۔۔۔ کہ سگریٹ نوشی ایک لعنت ہے۔۔۔۔ یہ انسان کی صحت کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔۔۔ اور اندر اندر گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔۔۔ خدارا اس لعنت سے بچیں۔۔۔


مقصدِحیات

اس جگہ کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں سے سورج سمندر میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔۔۔

نارنگی روشنی، آسمان کے صفحہ پر پھیلتی ہوئی، شارجہ کارنش کو سنہرے رنگوں میں ڈبو دیتی ہے۔۔۔

السلام علیکم و رحمتہ اللہ، کہہ کر اپنے بائیں کاندھے  کی طرف سر موڑتے ہوئے اس نے نماز مغرب مکمل کی۔۔۔ ایک لمبی سانس بھری اوراپنے سامنے بچھے آسمان پر نظر ٹکا دی۔۔۔

ہزاروں دانشوروں اور علماء نے آسمانوں میں چھپی جنت کو کھوجنے کی کوشش کی۔۔۔ اور زندگی کے معمہ کو جاننا چاہا ہے۔۔۔

فرابی سے غزالی تک۔۔۔
ارسطو سے اقبال تک۔۔۔

لیکن کوئی روح کی تسکین کا سامان نہیں کر سکا۔۔۔

یہ سوچتے ہوئے وہ اپنی گاڑی کی طرف چل دیا اور پھر بلاوجہ سڑکیں ناپتا رہا۔۔۔

سوچنا اور تحقیق کرنا اس کی بہت پرانی عادت تھی۔۔۔ وہ کرہ ارض میں مخفی خزانوں کے بارے میں سوچتا تھا۔۔۔ آسمان کے بارے میں سوچتا تھا۔۔۔ زندگی کے بارے میں سوچتاتھا۔۔۔ انسانی خصلتوں کے بارے میں سوچتا تھا۔۔۔

اس نے اپنی گاڑی کا رخ عجمان کارنش کی طرف کر دیا۔۔۔ جہاں ٹریفک جام اس کا منتظر تھا۔۔۔

ہم سب دنیا کی ہوس میں اندھے ہو چکے ہیں۔۔۔ اپنے طور پر دنیا کے بارے میں سب کچھ جاننے کے دعویدار بھی ہیں۔۔۔ دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھنا بھی چاہتے ہیں۔۔۔لیکن۔۔۔

کوئی بھی دنیا کی حقیقت سے واقف نہیں۔۔۔ اور وہی حقیقت تو مقصدِ حیات ہے۔۔۔

بھاری ٹریفک میں بریک پر پاوں رکھے وہ سوچتے ہوئے مسکرا اٹھا۔۔۔

"مقصدِ حیات تو مقصد سے بھرپور زندگی ہی ہے۔۔۔”


بڑی تلخ ہے یہ زندگی

بڑی تلخ ہے یہ زندگی۔۔۔ شاید ہی کسی کی سگی ہو گی۔۔۔ شاید ہی کسی کو راس آئی ہوگی۔۔۔ شاید ہی کسی کے کام آئی ہوگی۔۔۔ شاید ہی کسی کے لیے آسان ہوگی۔۔۔ بڑی تلخ ہے یہ زندگی۔۔۔

ساری عمر کسی کے ساتھ اچھا کرتے رہو۔۔۔ لیکن کسی مجبوری سے ایک بار ساتھ نا دےسکو۔۔۔ تو ساری اچھائی کنویں میں گر جاتی ہے۔۔ ساری عمر کی ریاضتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔۔۔ بڑی تلخ ہے یہ زندگی۔۔۔

ساری عمر رشتے نبھاتے رہو۔۔۔ بس ایک بار چوک جاو۔۔۔ تو سارے رشتے روٹھ جائیں گے۔۔۔ ساری محبتیں امتحان لینے لگیں گی۔۔۔ سارے تعلق حساب  مانگنے لگیں گے۔۔۔ بڑی تلخ ہے یہ زندگی۔۔۔

ساری عمر زمہ داریاں نبھاتے گزر جائے۔۔۔ ایک بار۔۔۔ صرف ایک بار اپنی خوشی کے لیے بغاوت کر گزرو۔۔۔ تو ساری محنتیں، سارے احساسات اور ساری کاوشوں پر سوالیہ نشان لگ جائے۔۔۔ بڑی تلخ ہے یہ زندگی۔۔۔

“نیکی کر دریا میں ڈال”۔۔۔ بڑا مشکل کام ہے۔۔۔ زندگی بھر نیکیاں کرتے رہو۔۔۔ اور دریا میں ڈالتے رہو۔۔۔ لیکن صرف ایک بار نیکی کی توقع کرلو۔۔۔ اور خود کو حد درجے کمزور ثابت کر دو۔۔۔ گرا لو دوسروں کی نظروں میں۔۔۔ الفاظ ہی مار ڈالیں گے۔۔۔ بڑی تلخ ہے یہ زندگی۔۔۔

محبت کر لو۔۔۔ محبت دے دو۔۔۔ محبت بانٹ لو۔۔۔ محبت پھیلا لو۔۔۔ لیکن محب ہونے کی خواہش کرتے ہی۔۔۔ گناہگار ثابت کیئے جاو۔۔۔ کیسی محبت، کیسے جذبے۔۔۔ کیسا ایثار اور کیسے رشتے۔۔۔۔ بڑی تلخ ہے یہ زندگی۔۔۔


ہماری تحریریں آنے والی نسلوں کی امانت ہیں! (via گیلی دھوپ)

حدیث شریف ہے کہ، عالم کے قلم کی روشنائی شہید کے خون سے زیادہ مقدس ہے۔ ایک بار تانیہ رحمان صاحبہ نے بلاگرز سے ایک سوال کیا تھا کے، آپ بلاگ کیوں لکھتے ہیں؟ تقریباَ سب نے ہی بلاگ لکھنے کی وجہ بیان کی تھی، میں نے اس وقت بھی یہ ہی لکھا تھا کہ میں بلاگ کو سیکھنے سکھانے کا زریعہ سمجھتا ہوں۔ میرا ایسا ماننا ہے کے لکھنے کا کوئی بھی ایسا زریعہ جس سے آپ اپنی تحریر سپرد زد عام کر رہے ہوتے ہیں وہ قوم کی امانت ہوتی ہے وطن کی امانت ہوتی ہے وطن میں رہنے والے لوگ … Read More

via گیلی دھوپ