Monthly Archives: جنوری 2013

مزارِ قائد اور جسم فروشی

"کاشی یار، کراچی آیا ہوں۔۔۔ تو قائدِ اعظم کے مزار پر ہی لے چل۔۔۔ سلام ہی کر آوں انہیں۔۔۔ "

سڑکوں پر مٹر گشتی کرتے ہوئے میں نے کاشی سے درخواست کی۔۔۔ اور کاشی نے گاڑی مزارِ قائد کی طرف موڑ لی۔۔۔  ایک گیٹ پر اندر داخل ہونے لگے تو ڈیوٹی پر کھڑے اہلکار نے کہا کہ آج داخلہ منع ہے کیونکہ کوئی سرکاری وفد مزار پر حاضری دے رہا ہے۔۔۔ سیکیورٹی کے پیش نظر کسی بھی "سیویلین” کا حاضری دینا آج ممکن نہیں۔۔۔

میں نے کاشی کو کہا ، یار چل ادھر ہی کھڑے ہو کر سلام کرلیتے ہیں۔۔۔ کاشی نے گاڑی تھوڑی آگے کر کے کھڑی کر دی۔۔۔   میں اور کاشی کسی بات پر مشغول تھے، کہ باہر سے ایک نقاب پوش خاتون گاڑی کی طرف آتی دکھائی دیں۔۔۔ میں نے حیرت سے کاشی سے پوچھا کہ یہ بی بی ہماری جانب کیوں آ رہی ہے۔۔۔ بھکارن تو نہیں لگ رہی۔۔۔ جوابا کاشی نے قہقہ لگایا کہ بھائی جان، یہ کاروباری خاتون ہے۔۔۔ جس لہجے میں اس نے بتایا، میں سمجھ گیا کہ "کاروبار” سے مراد کونسا کاروبار ہے۔۔۔

  اس اثنا میں خاتون نے گاڑی کے بند شیشے پر دستک دی۔۔۔ ناجانے میرے پسینے کیوں چھوٹ گئے۔۔۔ میں نے کاشی کو کہا کہ چل یار، یہاں سے نکلیں۔۔۔ کاشی بھی میری کیفیت دیکھ کر مزے لینے کے موڈ میں تھا۔۔۔ اس نے بھی گاڑی نہیں بڑھائی۔۔۔ بلکہ ہنستا رہا اور کہا، کہ چل اب بی بی سے نپٹ۔۔۔ نقاب پوش خاتون  نےدو تین دفعہ دستک دینے کے بعد شاید یہ  اندازہ لگا لیا کہ گاڑی میں بیٹھے یہ دونوں بندے بس ٹائم پاس کر رہے ہیں۔۔۔  وہاں سے ہٹ کر وہ قریب میں کھڑے رکشے کے پاس جا کھڑی ہوئی اور ہماری طرف اشارے کرتے رکشہ ڈرائیور کو کچھ بتانے لگی۔۔۔ میں جو پہلے حواس باختہ ہوئے بیٹھا تھا اور ڈر گیا کہ اب رکشہ ڈرائیور آ کر کہیں ہم سے پھڈا ہی نا شروع کر دے۔۔۔ کاشی  صورتحال سے بھرپور مزے لے رہا تھا۔۔۔

"یار تو دبئی سے آیا ہے۔۔۔ اور اتنی سے بات پر تیرے پسینے چھوٹ گئے۔۔۔”

خیر اللہ اللہ کر کے اس نے گاڑی دوڑا دی۔۔۔ میں نے کاشی سے پوچھا  کہ یار "مزارِ قائد” میں بھی یہ سب کام ہوتے ہیں۔۔۔ !!! تو کاشی نے بتانا  شروع کیا کہ” یہاں پورا نیٹ ورک ہے جرائم پیشہ افراد کا۔۔۔۔  "جسم فروشی” کا کام جتنامزارِ قائد کے اردگرد اور احاطوں میں ہوتا ہے، شاید ہی کراچی کے کسی اور علاقے میں ہوتا ہو۔۔۔  نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے بھی "ڈیٹنگ” کا سب سے محفوظ مقام  مزارِ قائد کے اردگرد بنے خوبصورت گارڈن اور پارک ہیں۔۔۔ جہاں کونوں کدروں میں بیٹھے جوڑے راز و نیاز اور وہ  وہ کام کرتے ہیں جو شاید بند کمروں میں کرتے ہوئے بھی شرم کا باعث بنیں۔۔۔”

میں نے پوچھا کہ یار کھلے عام ، ان لوگوں کو ہمت کیسے بڑھ جاتی ہے، کیا یہاں  ان کی کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہوتی۔۔۔؟   کاشی جو ایک مشہور ٹی وی چینل میں کام کرتا ہے،  کہنے لگا کہ  سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔۔۔ یہ عورتیں جو یہاں کھڑی ہوتی ہیں، یہ تو  صرف ڈیل کروانے والی ہیں۔۔۔  ان کے ساتھ سودا طے ہو جائے تو یہ گاہگ کو کسی اور جگہ لے جا کر لڑکیاں مہیا کرتی ہیں۔۔۔  اردگرد کے لوگوں کو خاموش رہنے کا الگ پیسہ دیتی ہیں اور پولیس کو الگ۔۔۔ تو کون ان کو روکے۔۔۔

میں قائدِ اعظم  محمد علی جناح کی آخری آرامگاہ کے تقدس کو پامال ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ حیرت ، اورتاسف کے جذبات لیے چلتی گاڑی میں ہاتھ اٹھا کر اپنے قائد کے لیے فاتحہ پڑھی  اور کراچی گھومنے آگے نکل گیا۔۔۔