وہ ایک آنسو

مورخہ 14 اپریل۔۔۔
مقام: مسجدِ نبوی ﷺ

بابِ جبرائیل اور بابِ البقیع کے درمیان ایک باریش نوجوان ہاتھ باندھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے سامنے با ادب کھڑا تھا۔۔۔۔ میں  نے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے دیکھ کر اپنے چلنے کی رفتار کم کر لی۔۔۔  شاید اس کے معصوم چہرے پر ندامت تھی۔۔۔  میں نے چلتے چلتے بس اس کی آنکھوں سے ایک قطرہ آنسو گرتے دیکھا۔۔۔

وہ ایک آنسو مجھے شرمندگی کی اتاہ گہرائیوں میں پہنچا گیا۔۔۔   کہ میری آنکھیں اب بھی خشک تھیں۔۔۔

About عمران اقبال

میں آدمی عام سا۔۔۔ اک قصہ نا تمام سا۔۔۔ نہ لہجہ بے مثال سا۔۔۔ نہ بات میں کمال سا۔۔۔ ہوں دیکھنے میں عام سا۔۔۔ اداسیوں کی شام سا۔۔۔ جیسے اک راز سا۔۔۔ خود سے بے نیاز سا۔۔۔ نہ ماہ جبینوں سے ربط ہے۔۔۔ نہ شہرتوں کا خبط سا۔۔۔ رانجھا، نا قیس ہوں انشا، نا فیض ہوں۔۔۔ میں پیکر اخلاص ہوں۔۔۔ وفا، دعا اور آس ہوں۔۔۔ میں شخص خود شناس ہوں۔۔۔ اب تم ہی کرو فیصلہ۔۔۔ میں آدمی ہوں عام سا۔۔۔ یا پھر بہت ہی “خاص” ہوں۔۔۔ عمران اقبال کی تمام پوسٹیں دیکھیں

6 responses to “وہ ایک آنسو

تبصرہ کریں